بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || امریکی وزیر جنگ پیٹ ہیگسیتھ نے امریکی محکمہ دفاع کا نام تبدیل کرکے "محکمہ جنگ" رکھے جانے کے بعد کہا کہ امریکہ کا ارادہ ہے کہ وہ اب سے "زیادہ جارحانہ روشوں سے کام کرے گا اور زیادہ سے زیادہ قتل عام کرے گا"۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے مغربی ایشیا کے وقت کے مطابق، جمعہ (5 ستمبر 2025) کی شام ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کرکے تمام دستاویزات میں "محکمہ دفاع" کا نام تبدیل کرکے "محکمہ جنگ" کر دیا۔ تاہم، مستقل تبدیلی کے لئے کانگریس کی جانب سے نئی قانون سازی کی منظوری درکار ہے۔ ٹرمپ نے کہا کہ وہ کانگریس سے اس نام کو قانونی شکل دینے کی درخواست کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
پیٹ ہیگسیتھ نے ٹرمپ کے ساتھ صحافیوں سے کہا: "امریکہ جنگیں لڑنے کے لئے اب زیادہ جارحانہ نقطہ نظر اپنائے گا اور "زیادہ سے زیادہ جانی نقصان پہنچانے" پر کاربند رہے گا۔"
امریکی وزیر جنگ نے مزید کہا: "محکمہ جنگ فیصلہ کن طور پر لڑے گا اور لامتناہی جھگڑوں میں ملوث نہیں ہوگا۔ ہمارا مقصد محض شکست سے بچنا نہیں بلکہ فتح حاصل کرنا ہے۔ ہم محض دفاع کرنے کے بجائے، حملہ کریں گے۔ ہم اپنی مکمل جنگجو صلاحیت اور تباہی کی طاقت استعمال کریں گے اور صرف قانونی ظواہر یا سیاسی مصلحتوں کی پاسداری پر اکتفا نہیں کریں گے۔"
پیٹ ہیگسیتھ نے پھر دعویٰ کیا کہ یہ نقطہ نظر "جنگجوؤں کی ایک نئی قوم تشکیل دے گا، نہ کہ مدافعوں کی قوم"۔
اس سلسلے میں الجزیرہ نیٹ ورک کی ویب سائٹ نے لکھا: "نام کی اس تبدیلی کو عام طور پر ٹرمپ کی صدارت میں خارجہ پالیسی میں زیادہ جارحانہ موقف کی علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اپنی دوسری مدت کے آغاز سے، ٹرمپ نے یمن، ایران اور جنوبی کیریبین میں بمباری کی مہمات چلائی ہیں، حالانکہ اس سے قبل انھوں نے وعدہ کیا تھا کہ انتخابات میں کامیاب ہوکر "امن پسند اور متحد کرنے والا" صدر بنے گا!
واضح رہے کہ ٹرمپ ایک نفسیاتی نرگسیت میں مبتلا شخص ہے اور جہاں "نام و نمود ہو" ـ خواہ و جنگ ہو خواہ امن، ٹانگ اڑ دیتے ہیں نام کمانے کے لئے؛ یہاں تک کہ انھوں نے امن کا نوبل انعام جیتنے کی سعی باطل بھی کر ڈالی اور بچوں کے قاتل نیتن یاہو نے بھی نوبل انعام کے لئے ان کی حمایت کا اعلان کیا۔
امریکی جنگوں کے بھینٹ چڑھنے والے دو سے تین کروڑ تک، انسان
امریکی وزیر جنگ ایسے موقع پر "زیادہ سے زیادہ قتل عام" کی بات کر رہے ہیں جبکہ دوسری جنگ عظیم کے اختتام سے لے کر 2025 تک، امریکہ نے دنیا بھر میں 240 سے زیادہ جنگیں اور فوجی جھگڑوں میں براہ راست یا بالواسطہ مداخلت کی ہے۔ کچھ معاملات میں یہ ملک براہ راست جنگوں میں شامل ہؤا، جبکہ دوسرے معاملات میں اس نے اتحادیوں کی حمایت، فوجیوں کی تربیت، مالی معاونت یا فضائی طاقت اور خصوصی آپریشنز کے استعمال کے ذریعے بالواسطہ کردار ادا کیا۔ ان میں سے کچھ جنگیں کوریا، ویت نام، عراق، افغانستان اور حالیہ جنگیں شام اور یمن میں شامل ہیں۔
گلوبل ریسرچ تھنک ٹینک کی ایک تحقیق کے مطابق، تمام براہ راست اور بالواسطہ جنگوں کے ساتھ ساتھ ثانوی اثرات جیسے قحط، بیماریوں اور مداخلتوں سے پیدا ہونے والی عدم استحکام کی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے، دوسری جنگ عظیم کے بعد سے امریکی جنگوں میں انسانی ہلاکتوں کی کل تعداد کا تخمینہ کروڑوں میں میں لگایا گیا ہے، بعض اوقات یہ تعداد دو سے تین کروڑ تک پہنچ جاتی ہے۔
چائنا سوسائٹی فار ہیومن رائٹس اسٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق، امریکی حکومت نے دوسری جنگ عظیم کے بعد سے دنیا بھر میں 81% تنازعات میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
تبصرہ
جتنی نظری پیشقدمی، اتنی ہی عملی پسپائی
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ بے بسی کی انتہاؤں پر ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ میدان عمل میں ناکامی ہوجاتے ہیں تو نظری (Theoretical) طور پر آگے بڑھتا ہے اور دنیا کو ڈرانے کے لئے تھیوری کی حد تک جارحانہ انداز اپناتے ہیں اور دنیا کی پہلی طاقت والی پرانی اداکاریوں پر اتر آتے ہیں؛ گوکہ اداکاری ٹرمپ کے دوسرے دور کے خاتمے سے پہلے یا اس کے بعد، ختم ہو ہی جائے گی، اور ان کے بعد تو بہت مشکل سے چلے گی۔ یہ بھی ایک خیال ہے کہ امریکہ نے ٹرمپ کے اس دور صدارت میں تھیوری میں (اور کاغذ پر) میں جتنی پیشقدمی کی ہے، ٹرمپ کے بعد عملی میدان میں اسے اتنی ہی پسپائی اختیار کرنا پڑے گی۔
کہا جاتا ہے کہ عملی ناکامیوں کے بعد نظری طور پر 'تیوْری چَڑھانا' اور ڈرامہ بازی کا سہارا لینا" درحقیقت طاقت کے زوال کی ایک کلاسیکی علامت ہے:
1۔ یہ امریکی پالیسی میں تبدیلی نہیں ہے
ٹرمپ کا "محکمہ دفاع" کا نام تبدیل کرکے "محکمہ جنگ" رکھنا، ایک علامتی اقدام (Symbolic Gesture) ہے، جس کا مقصد 'جارحانہ قومی سلامتی' کا اشارہ دینا ہے۔ تاہم، امریکی خارجہ پالیسی نیز قانون سازی کا ڈھانچہ نیز اس کا صنعتی انفراسٹرکچر کو عام طور پر صدر کے انتہائی اقدامات کو محدود کرنا پڑتا ہے۔ ٹرمپ کے بعد آنے والی انتظامیہ اس نام کو دوبارہ تبدیل کر سکتی ہے، اور یہ بہرحال فی الحال محض ایک ظاہری تبدیلی نظر آتی ہے۔
2۔ بین الاقوامی ردعمل اور طاقت کا توازن
امریکہ کے جارحانہ انداز کے باوجود، حقیقی طاقت کا مرکز تیزی سے مشرق کی طرف منتقل ہو رہا ہے (جیسے SCO، BRICS، چین کی معاشی بالادستی)۔ ٹرمپ کی "America First" جیسی پالیسیوں نے درحقیقت ـ پہلے ہی ـ امریکہ کے روایتی اتحادیوں (حتی کہ NATO) میں عدم اعتماد پیدا کر دیا ہے، جس سے اس کی عالمی قیادت والی تصویر مزید پھیکی پڑ گئی ہے۔
3۔ داخلی دباؤ اور امریکہ کی محدود طاقت
امریکہ اس وقت سخت سخت (سماجی، معاشی اور سیاسی) داخلی تقسیم کا شکار ہے۔ اس کے باوجود ٹرمپ کی انتہائی پالیسیاں ـ کم از کم ریپبلکن پارٹی کے اندر ـ مقبول ہو سکتی ہیں، لیکن بیرونی دنیا میں وہ امریکہ کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ طویل مدت میں، ایک تقسیم شدہ اور غیر مستحکم امریکہ بین الاقوامی سطح پر اپنا اثر و رسوخ برقرار نہیں رکھ سکے گا اور یہ طویل مدت بھی بظاہر زیادہ طویل نہیں ہے بلکہ شاید صرف 2027 کے اواخر یا 2028 کے اوائل تک ہی چل سکے، جب ٹرمپ اپنا عہدہ وائٹ ہاؤس کے نئے کرایہ دار کے سپرد کریں گے۔
4۔ کاغذی تھیوریوں کا انجام
تجزیہ کاروں کی یہ بات بالکل درست لگتی ہے کہ "نظری طور پر جارحانہ انداز" اور "بے جا اداکاری اور ڈرامہ بازی" حقیقی طاقت کی متبادل نہیں ہے۔ ٹرمپ کا دورِ حکومت عارضی طور پر امریکہ کی جارحانہ تصویر تو پیش کر سکتا ہے، لیکن یہ ملکی انفراسٹرکچر کی کمزوری، بڑھتے ہوئے قرضے، سماجی عدم مساوات، مشرقی اتحادوں کے پھیلاؤ جیسے بنیادی مسائل ـ اور ملکی صلاحیتوں سے جوڑ نہیں کھاتا اور اس ملک کے ان مسائل کو حل نہیں کرتا۔ لہٰذا، ٹرمپ کے بعد امریکہ کو خارجہ پالیسیوں میں نیز داخلی طور پر پسپائی اختیار کرنا پڑے گی، اور اس پسپائی کا سلسلہ بہت دیر تک جاری رہے گا، یہاں تک کہ امریکہ 'معمول کا ملک' بن جائے، یا سابق سوویت روس کے انجام سے دوچار ہوجائے۔
"جتنی نظری پیشقدمی، اتنی ہی عملی پسپائی" یہ وہ چیز ہے جس کی توقع کی جا سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ